چینی وگندم بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں جہانگیر ترین، شریف فیملی ، اومنی گروپ، چودھری منیربھی شامل، وزیر اعظم نے کارروائی کا فیصلہ کر لیا


ملک میں آٹے اورچینی بحران سے کس کس نے فائدہ اٹھایا، کس کس نے عوام کی جیبوں کا ڈاکہ ڈال کر مال بنایا، ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کی تفصیلا ت منظر عام پر آ گئی ہیں ،اس رپورٹ کے مطابق بڑے بڑے سیاسی خاندان اور شوگر مل مالکان اربوں روپے کی سبسڈی میں ہاتھ ر نگنے میں ملوث
ہیں ان میںوزیر اعظم عمران خان کے قریبی دوست اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کی شوگرملز 56 کروڑ روپے ، خسرو بختیار کے بھائی کا گروپ 35 کروڑ روپے جبکہ شریف فیملی گذشتہ پانچ سالوں میںایک ارب 40 کروڑ اور اومنی گروپ نے 90 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔پورٹ میں آٹے کے بحران پر قابو نہ پا سکنے کی ذمہ داری صوبائی وزیر خوراک چوہدری سمیع اللہ پر ڈالی گئی ہے ۔ ملک میں چینی و آٹا بحران کی تحقیقات کیلئے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاءکی سربراہی میں ایف آئی اے ، انٹیلی جنس بیورو اور محکمہ اینٹی کرپشن کے نمائندوں پر مشتمل اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی حتمی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کر دی۔ پہلے مرحلے پر کمیٹی کی رپورٹ جاری کی گئی جبکہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ 25 اپریل کو جاری ہوگی،ایف آئی اے کی جاری کردہ رپورٹ میں نامور سیاسی گھرانوں کی شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ چینی برآمد کرکے شوگر ملز والوں نے دو طرح سے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا، ایک طرف تو انہوں نے چینی کی قیمتیں بڑھادیں اور دوسری جانب حکومت سے سبسڈی بھی لی۔حکومت کی طرف سے چینی پر دی جانے والی سبسڈی کا بڑاحصہ بااثر حکومتی شخصیات لے اڑیں۔ چینی کی برآمد کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کے ملکیتی جے ڈبلیو ڈی گروپ نے اٹھایا اور کل سبسڈی کا 22 فیصد 56 کروڑ روپے حاصل کئے ۔ وفاقی وزیرفوڈ سکیورٹی خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار کے رحیم یار خان گروپ نے چینی و آٹا بحران میں 81فیصد یعنی45کروڑ سے زائد کی سبسڈی لی۔اسی گروپ کے حصہ داروں میں نن لیگ کی قیادت کے قریبی رشہ دار چودھری منیر اور موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی کے بیٹے مونس الہٰی بھی حصہ دار ہیں۔ چوہدری منیر رحیم یارخان ملز، اتحاد ملز ٹوسٹار انڈسٹری گروپ میں حصہ دار ہیں۔تیسرے نمبر پرشمیم احمد خان کے ملکیتی المعیز گروپ نے سولہ فیصد یعنی 40 کروڑ روپے سے زائد سبسڈی حاصل کی۔مئی 2014ء سے جون 2019ء تک پنجاب حکومت کی جانب سے چینی برآمد پر سبسڈی دی گئی اور اسی عرصے میں چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو کااضافہ ہوا،دلچسپ بات یہ کہ شوگر برآمد کنندگان نے سبسڈی اور قیمت میں اضافے دونوں کا فائدہ اٹھایا، چینی کی برآمد کی اجازت دینے سے قیمت میں اضافہ اور بحران پیدا ہوا۔رپورٹ کے مطابق پانچ سال کے دوران حکومت کی جانب سے 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی،اس سبسڈی میں سے تین ارب کی سبسڈی پچھلے سال دی گئی تھی۔ آر وائی گروپ نے 4ارب ، جہانگیر ترین نے 3 ارب روپے سے زائد، ہنزہ گروپ نے 2ارب 80 کروڑ، فاطمہ گروپ نے 2 ارب 30 کروڑ، شریف گروپ نے 1 ارب 40 کروڑ اور اومنی گروپ نے 90 کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی حاصل کی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد سے ملک میں قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ چینی برآمد کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں شوگر ایڈوائزری بورڈ کو بھی قصوروار قرار دیا گیا ہے کیونکہ بورڈ بروقت فیصلے کرنے میں ناکام رہا۔ دسمبر 2018 سے جون 2019 تک چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو اضافہ ہوا اور اس عرصے کے دوران کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔مسلم لیگ ن کے سابق ایم پی اے غلام دستگیر لک کی ملز کو 14 کروڑ کا فائدہ پہنچا تھا۔ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کمیشن شوگر انڈسٹری کا فارنزک آڈٹ کرے گا جس سے آئندہ کے لئے ملک کے زرعی پالیسی مرتب کرنے میں مدد ملے گی ۔ دوسری جانب گندم بحران پر تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صوبائی وزیر خوراک پنجاب چوہدری سمیع اللہ آٹا بحران کے دوران مناسب اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے اس بحران کے ذمہ دار ہیں، گندم کے بحران کی بڑی وجہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے پلاننگ نہ ہونا ہے ۔ پنجا ب فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے 20-22دن تاخیر سے گندم جمع کرنا شروع کی اور فلور ملز کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا۔ فلور ملز مالکان نے پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی پورا نہ کرسکنے کی اہلیت کو جانتے ہوے فائدہ کمانے کیلئے مہم چلائی اور پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ ڈیمانڈ اینڈسپلائی کیلئے طریقہ کار بنانے میں ناکام رہا ، پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے صورتحال کے پیش نظرفیصلے نہیں لئے ۔پنجاب میں گندم کا ہدف پورا نہ کر سکنے کی ذمہ داری سابقہ فوڈ سیکرٹری نسیم صادق ، سابقہ فوڈ ڈائریکٹر ظفر اقبال پر عائد ہوتی ہے ۔ سندھ میں کم گندم حاصل کرنے کی ذمہ داری کسی پر انفرادی طور پر نہیں ڈالی جا سکتی،سندھ کابینہ نے گندم حاصل کرنے کی سمری پر کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا۔خیبر پختونخوا میں گندم خریداری کا ہدف پورا نہ کرنے پر وزیر قلندر لودھی،سیکرٹری اکبر خان اور ڈائیریکٹرسادات حسین ذمہ دار قرار پائے گئے ۔ایم ڈی پاسکو کی گندم خریداری کی رپورٹ درست نہیں تھی۔وزارت فوڈ سکیورٹی نے ای سی سی کو غلط اعدادوشمارپرگندم برآمد کرنے کا مشورہ دیا۔2019ء میں گندم کی پیداوار کا غلط اندازہ لگایا گیا۔ جبکہ مالی سال 2019-20ء میں ایک لاکھ 63 ہزار ٹن گندم برآمد کی گئی۔ گندم کی برآمد اوردرآمد میں تاخیر کی وجہ سے بے چینی پھیلی جس سے لوگوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔گندم کی برآمد پرپابندی نومبر کی بجائے جون 2019ء میں لگنی چاہیے تھی۔ سندھ حکومت کے گندم سٹاک میں بڑے پیمانے پر چوری ہوئی، گندم خریداری نہ کرنے پر ذمہ دار سندھ حکومت ہے ، گندم کی خریداری کا آڈٹ کیا جائے ۔ ملک میں گندم اور آٹے کے بحران میں فلورملز ایسوسی ایشن کی ملی بھگت ہے ، 13 دسمبر 2019 کو مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے فلورملز پر ساڑھے 7 کروڑ روپے کا جرمانہ کیا، فلور ملز ایسوسی ایشن نے مسابقتی کمیشن کے جرمانے کو عدالت میں چیلنج کردیا، مسابقتی کمیشن آف پاکستان کا تحقیقات کا طریقہ کار بہت سست ہے ، 13 سال میں مسابقتی کمیشن نے 27 ارب روپے جرمانے میں سے 3 کروڑ 33 لاکھ وصول کیا، ای سی سی کو بے خبر رکھنے پر صاحبزادہ محبوب سلطان معقول جواب نہ دے سکے

Post a Comment

0 Comments